ہوم / پاکستان / بچوں پر سیسے کے زہریلے اثرات: متاثرہ ممالک میں انڈیا سر فہرست جبکہ پاکستان تیسرے نمبر پر

بچوں پر سیسے کے زہریلے اثرات: متاثرہ ممالک میں انڈیا سر فہرست جبکہ پاکستان تیسرے نمبر پر

لیڈ یا سیسے کے زہریلے اثرات کے بارے میں عالمی سطح پر ایک نئی تحقیق کے مطابق سیسے سے متاثر بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر جبکہ انڈیا پہلے نمبر پر ہے۔
یہ رپورٹ بچوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف اور پیور ارتھ نامی ادارے نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک بچہ سیسے کے زہریلے اثرات کا شکار ہے جس سے ان کی صحت کو ناقابلِ علاج نقصان پہنچ سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 80 کروڑ بچے سیسے سے متاثر ہیں جن کی زیادہ تعداد ترقی پذیر ممالک میں ہے۔ اس سے پہلے اس مسئلے کو اتنے بڑے پیمانے پر نہیں دیکھا گیا۔سیسے سے متاثر بچوں کی عالمی تعداد کا لگ بھگ نصف جنوبی ایشیا میں ہے جبکہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد چار کروڑ دس لاکھ سے زیادہ ہے۔

سیسے کے زہریلے اثرات بچوں کے دماغ، اعصابی نظام، دل، پھیپھڑوں اور گردوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیسہ ایک نیورو ٹوکسن ہے جس کی بہت کم مقدار بھی ذہانت میں کمی، متوجہ ہونے کے وقت میں کمی اور زندگی میں آگے چل کر پرتشدد اور مجرمانہ رویے کا باعث ہو سکتی ہے۔
رحمِ مادر سے لے کر پانچ برس کے بچوں کو زندگی بھر کے لیے دماغی امراض اور جسمانی معذوریوں اور یہاں تک کے ہلاک ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔’سیسے کے زہر سے متاثر دوسرا بڑا خطہ افریقہ ہے جہاں نائجیریا سب سے زیادہ متاثر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا پہلے نمبر پر جبکہ نائجیریا، پاکستان اور بنگلہ دیش دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایسی بیٹریوں کی ری سائیکلنگ جن میں سیسے کا تیزاب استعمال ہوتا ہے سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ جبکہ ای ویسٹ یعنی استعمال شدہ الیکٹرانک اشیا بعض مصالحے جن میں نقصان دہ اشیا شامل کی جاتی ہیں، عمارتوں پر کیے جانے والے رنگ اور بعض کھلونے بھی وہ ذرائع ہیں جو سیسے کے زہریلے اثرات پھیلانے کا سبب ہیں

سنہ 2000 سے اب تک ترقی پزیر اور غریب ممالک میں گاڑیوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے لیڈ ایسڈ بیٹریوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کا کام بھی بہت بڑھا ہے۔ ایسا اکثر غیر محفوظ طریقے سے کیا جاتا ہے۔’ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں تیار ہونے والے سیسے کا 85 فیصد بیٹریاں بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے جن میں سے زیادہ تر گاڑیوں کی دوبارہ استعمال شدہ بیٹریوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں سنہ 2017 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں حاملہ خواتین اور بچوں کے خون میں سیسے کی بڑی مقدار کے بارے میں اعداد و شمار سامنے آئے تھے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ خوراک، گھروں میں موجود گرد اور سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہونے والی گرد حاملہ خواتین اور چھوٹے بچوں کے خون میں سیسے کی بڑھی ہوئی سطح کی بڑی وجوہات ہیں۔

دو سال قبل پاکستان ہی میں ہونے والی ایک دوسری تحقیق میں عمارتوں پر کیے جانے والے رنگوں میں لیڈ یعنی سیسے کی بڑی مقدار کے بارے میں حقائق سامنے آ چکے ہیں۔


پینے کے پانی میں سیسے کی موجودگی بھی ایک مسئلہ ہے۔صنعتی فضلہ زیرِ زمین پانی کو آلودہ کر رہا ہے اس کے علاوہ پانی سپلائی کرنے والے پائپوں میں بھی سیسہ شامل ہے۔’


جنوبی ایشیا میں سیسے کی آلودگی کی ایک وجہ وہ انورٹر ہیں جو لوگ بجلی کی عدم فراہمی کے باعث استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔یونیسف کے مطابق پاکستان میں چار کروڑ دس لاکھ بچوں کے خون میں سیسے کی سطح پانچ مائکرو گرام فی ڈیسی لیٹر سے زیادہ ہے۔ جبکہ عالمی ادار? صحت کے معیار کے مطابق یہ تشویشناک سطح ہے۔

پانچ سال سے کم عمر زیادہ خطرے میں ہیں کیونکہ ان کے دماغوں کو پوری طرح نشو نما پانے سے پہلے ہی اتنا نقصان پہنچ سکتا ہے کہ وہ تمام عمر کے لیے ذہنی معذوریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کے وزن کے تناسب سے بچے بڑوں کے مقابلے میں خوراک، مائع اور ہوا کا استعمال پانچ گنا زیادہ کرتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ وہ اس زھر کو بھی زیادہ استعمال کر سکتے ہیں اگر یہ مٹی اور ہوا میں شامل ہے اور ایسی جگہ پر موجود ہے جہاں بچے بھی ہیں۔’


رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بچوں کے سیسے سے متاثر ہونے کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی علامات عموماً بڑے ہونے تک سامنے نہیں آتیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے