تحریر: آفاق فاروقی (نیویارک)
جب کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑہ لگا کر تحریک انصاف کی بھدی بد نما بلڈنگ بنائی جارہی تھی ان دنوں سے بھی بہت پہلے میرا یہ خیال تھا کہ عمران خان ایک کرکٹر ہیں اور ایک گلیمرس پلے بوائے جو اپنی شہرت کے ساتھ مردانہ وجاہت کی بنیاد پر شوکت خانم ہسپتال بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ جس کی تعمیر میں ان اوورسیز پاکستانیوں کا بڑا ہاتھ ہے جو عمران جیسے شہرت رکھنے والے لوگوں سے دوستی رکھنے کے لیے شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈریزنگ کرکے جانے انجانے میں عمران خان کا پورا ایک نیٹ ورک بن گئے جن کا نہ کوئی سیاسی تجربہ ہے اور نہ ہی عوامی خدمت کا کوئی جذبہ۔ پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے مشرف کے جانے کے بعد بدعنوانی اور بدانتظامی سے مستقل سیاسی کھلاڑی کو دیوار سے لگا دیا اور یوں قرعہ فال تحریک انصاف کے نام نکلا ۔ مستقل سیاسی کھلاڑی کے ساتھ عوام میں بھی ان حالات نے یہ سوچ پیدا کردی تھی “ کیا یہی دو پارٹیاں نمبر وار اس ریاست کا بیڑہ غرق کرتی رہیں گی ؟ یوں اس بیڑے کو غرق کرنے کے لیے تیسرے فریق کا سامنے لانا اہم ہوچکا تھا۔ اس کے بعد کی کہانی سب کو پتہ ہے۔ کہا جارہا ہے اگر عمران خان کو ہٹا بھی دیا جائے چلتا کر بھی دیا جائے تو پھر کون ۔۔؟ کہنے والے کہتے ہیں مستقل سیاسی پارٹی ملک کے سیاسی منظر سے مکمل مطمئن ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے مایوس عوام کو بھی سیاسی ٹھکانہ مل گیا ہے اور اب اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی ایسی صورت حال نہیں چاہے گی کہ نئے بتوں کی طرح نئی لٹھ پتلیاں تراشنا ایک لمبا اور مشکل کام ہے۔ پی ٹی آئی سے پہلے اس ملک میں تیسری سیاسی قوت کی ضرورت کا بہت شور تھا۔ اب یہ خلا بھی پورا ہوچکا۔ اسٹیبلشمنٹ کو اور کیا چاہئے۔ رنگ میں تین کھلاڑی اور تینوں مرغ دست آمو۔
یہ تو طے ہوا اب یہی تین بدعنوان بد انتظام اگلے دس پندرہ بیس برس مقدر ٹھہریں گے مگر کیا اس افواہ میں کوئی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی بد انتظام اور بد عنوان حکومت کو مارچ اپریل میں چلتا کرکے ایک نئی بھان متی کے کنبے پر مشتمل حکومت کی راہ ہموار کی جارہی ہے ۔۔؟ کیونکہ خان حکومت جن کے ایک سابق وزیر صحت عامر کیانی پر دس ارب روپے ہڑپ کرنے کا الزام ہے۔ جس حکومت میں انیل مسرت اور زلفی بخاری کے والد بھی لندن سے آکر حکومتی معاملات میں سرگرم ہیں۔ اسی کے ساتھ جہانگیر ترین جو بظاہر مکمل نااہل ہیں مگر آدھی حکومت انکے لوگ چلا رہے ہیں۔ ادھر اعظم سواتی جیسے وزیر شامل ہیں جن پر شمالی علاقوں کے بہت سے جنگل کاٹ کر فروخت کرنے کے الزامات سے لیکر درجنوں الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اس حکومت کے بارے میں مستقل سیاسی کھلاڑی اسٹیبلشمنٹ نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ معشیت کی خرابی مہنگائی اور بدانتظامی نے اس حکومت کی عوامی حمایت ختم کردی ہے اور ساتھ میں حکومت کی لمبی زبان اس صورت حال پر دو آتشہ ہے۔ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے تمام مراحل طے ہونے کے بعد جی ایچ کیو میں نئے سیاسی حکومتی خاکے پر روزانہ کی بنیادوں پر ھنگامی صورت حال بتائ جارہی ہے۔
عمران خان اپنی اہلیہ ،پرنسپل سیکریڑی اعظم خان اور زلفی بخاری کے ساتھ حکومتی معاملات چلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وفاق کی بدانتظامی اور معشیت کی خرابی بدانتظامی کی ہی ایک وجہ ہے۔ مہنگائی کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے حالات خان کی گلے کی ہڈی ہی نہیں انکی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ یہاں عثمان بزدار عمران کی اہلیہ کی ضد پر لائے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کا اس تعیناتی میں کُل اتنا ہاتھ بتایا جاتا ہے کسی کو بھی وزیر اعلی بنایا جائے بس خیال یہ رکھنا ہے آنے والے چیف منسٹر میں شہباز شریف جیسی آگے بڑھنے کی صلاحیت نہ ہو۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو کیا معلوم تھا خان صاحب اتنے فرمانبردار نکلیں گے کہ وہ شہباز شریف کی شوبازی کی صلاحیت سے مبرا فرد کی تلاش میں ایک ایسے فرد کو منتخب کریں گے جو بولنے سننے سمجھنے کے ساتھ ہر انسانی صلاحیت سے ہی عاری ہوگا۔
حالات پر نگاہ رکھنے والے دعویٰ کرتے ہیں معشیت کے شعبے میں کی جانے والی بد انتظامی نے مہنگائی کو بڑھاوا دیا اور مہنگائی نے خان حکومت کے حمایتوں کو بھی بدظن کردیا ہے۔ حکومت کے مشیر خزانہ کا رویہ اور انکی حکومتی معاملات سے لا تعلقی ظاہر کرتی ہے ابھی معیشت بھی اور خراب ہوگی اور مہنگائی کا جن بھی پیر پھیلاتا جائے گا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ ایف بی آر کے چئیرمین شبر زیدی اور مشیر خزانہ کے درمیان بھی تاجروں سے مشیر خزانہ کے رویہ کے باعث ٹھن گئی ہے اور شبر زیدی پندرہ دن کی چھٹی لیکر گھر بیٹھ گئے ہیں اور انکی ملک میں موجودگی کے باوجود ایف بی آر میں ایکٹنگ چئیرمین تعینات کردیا گیا ہے۔
پنجاب میں اب صورت حال یہ ہے ترقی تبادلے سے لیکر فنڈ دینے تک کے تمام اختیارات صوبے کے چیف سیکرٹری کو یہ کہہ کر دیدئیے گئے ہیں کوئی سیاسی سفارش دباؤ نہ قبول کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے پنجاب اسمبلی کا کورم پورا کرنا بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ اراکین اسمبلی کہتے ہیں جب حکومت میں ہمارا کوئی اسٹیک ہی نہیں تو پھر کورم بھی چیف سیکریڑی سے پورا کروالیا جائے۔ چیف سیکریٹری نے گجرات اور چوہدریوں کے زیر اثر علاقوں کے علاوہ تمام سیاسی بنیادوں پر تعینات افسران کو فارغ کرکے نئی تعیناتیاں کیں ہیں۔ وزیر بھی بے اختیار بنا دئیے گئے ہیں۔ اس وقت صوبے پر چیف سیکریڑی کی حکومت ہے جن سے خود وزیر اعلی بھی تعاون کرتے نظر نہیں آتے۔ ایک واقف حال کا کہنا ہے صوبے سے وفاق تک مختلف مافیا سرگرم ہیں۔کنسٹرکشن مافیا، قبضہ مافیا میڈیا اور مافیا سے لیکر زندگی کے ہر ہر شعبے میں بڑے بڑے مافیا گروپ جنم لے چکے ہیں۔ اب اسٹیبلشمنٹ بھی ان مافیا گروپوں کے سہارے بنا چلنے سے قاصر ہے۔ وزیرعظم نے فیصل آباد میں بڑے تفاخر سے کہا صوبے کے آئی جی نے بڑے بڑے ڈاکووں کو پکڑ کر قانون کی بالادستی قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر وزیرعظم نے پکڑے جانے والے کسی مافیا گروہ یا کسی ڈاکو کا نام نہیں بتایا۔ واقف حال کہتے ہیں وزیر اعظم کا یہ بیان بالکل ویسا ہی ہے جیسے ملک میں ہونے والے حادثات و واقعات پر حکمرانوں سیاست دانوں کے پہلےسے لکھے رٹے رٹائے بیانات میڈیا کو جاری کردئیے جاتے ہیں۔ یہ واقفان حال کہتے ہیں لاہور امراض قلب کے تمام وکلا ضمانتیں لیکر گھر جاچکے۔ جن دس بڑے نامور جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کی فہرست بنائی گئی تھی وہ بھی ضمانتیں لینے میں کامیاب رہے۔ اس کے علاوہ آئی جی نے کس کو پکڑا ہے پھر یہ معاملہ آئی جی اور وزیر اعظم کے درمیان ہے باقی صوبے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ صوبے کے گورنر محفلیں لگانے تک محدود ہوچکے ہیں اور انکا سیاسی مستقبل آخری ایام سے گزر رہا ہے۔
لاہور میں سب سے دلچسپ سیاسی مناظر مریم نواز کی بیٹی کے سسر منیر چوہدری کے کاروباری پارٹنر اور دنیا نیوز کے مالک اور سابق مئیر لاہور میاں عامر محمود کے صاحبزادے کی شادی میں دیکھے گئے۔ ایک عالم جمع کیا گیا تھا اور زندگی کے ہر شعبے اور طبقے کی اشرافیہ مدعو تھی۔بتایا جاتا ہے یوں تو مہمانوں کو میاں عامر کے صاحبزادے خوش آمدید کہنے کے لیے پنڈال کے دروازے پر موجود تھے مگر آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے استقبال کے لیے میاں عامر محمود خصوصی طور پر جنرل صاحب کی گاڑی تک آئے۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ جنرل آصف غفور کے گاڑی سے اترتے ہی وزیر اعلی نے یوں استقبال کیا جیسے انگریزی دور میں وائسرائے کا کیا جاتا تھا۔ مطلب جھکنے لچکنے سے چہرے پر دنیا میں ہی جنت مل جانے کی خوشی کے خوشگوار تاثرات تک آداب غلامی کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا۔ پھر جنرل صاحب وزیر اعلی کا ہاتھ پکڑے پکڑے پنڈال میں یوں داخل ہوئے کہ ایک جانب میاں عامر محمود انکے ہمراہ تھے تو دوسری جانب وزیر اعلی جنرل صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ پورا پنڈال حضور کی ایک جھلک دیکھنے اور مصحافے کا موقع ملنے کی آس میں امڈ آیا تھا اور فون کیمرے اور پروفیشنل کیمروں کا ہجوم بے کراں اس موقع پر عجیب منظر پیدا کررہا تھا۔
کہا جارہا ہے میاں عامر محمود اگلے حکومتی سیٹ اپ میں پنجاب کے وزیر اعلی اور گورنر کے اہم ترین عہدوں کے سب سے اہم اور مظبوط امید وار ہیں۔ واقفان حال کا دعوی ہے خان حکومت کے پاس بس یہ جنوری اور فروری کا آدھا مہینہ ہے۔ اگر وہ کوئی بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں تو لے آئیں جس کا امکان قریباً ناممکن ہے۔ خان حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ پاکستان میں سودے بازی کے سب سے بڑے سیاسی انجئیر میاں برادران کی جانب سے آرمی ایکٹ میں دکھائی جانے والی سرگرمی اور مریم نواز سمیت ن لیگ کی خاموشی اسی سودے بازی کا حصہ بتائی جاتی ہے۔