اپنا کے سابق چیئرمین ایڈوکیسی کمیٹی ڈاکٹر عتیق صمدانی کا جنسی ہراسانی کے مقدمے میں لائسنس معطل،پاکستان سے آئی نوجوان خاتون ڈاکٹر کا ہوٹل میں ‘معائنے’ کے بہانے نازیبا حرکات کا الزام

پاکستان پوسٹ: ورجینیا بورڈ آف میڈیسن کے ارکان نے 27جون 2025 جمعے کو متفقہ طور پر ڈاکٹر عتیق صمدانی کا میڈیکل لائسنس ہمیشہ کے لیے منسوخ کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس سے قبل مارچ میں اُس وقت اُن کا لائسنس معطل کر دیا گیا تھا جب پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ڈاکٹر نے اُن پر طبی تربیت کے دوران نازیبا طور پر چھونے کا الزام لگایا تھا۔
اس باضابطہ سماعت میں ڈاکٹر صمدانی کو موقع دیا گیا کہ وہ یہ وضاحت کریں کہ اُن کا لائسنس کیوں بحال کیا جائے۔ یہ سماعت پورا دن جاری رہی اور دولتِ عامہ (ریاست) کی طرف سے 4 گواہوں نے شہادت دی۔
پاکستان سے آئی ہوئی خاتون ڈاکٹر، جو گزشتہ سال جولائی میں امریکہ ایک آبزروَر شپ پروگرام کے لیے آئی تھیں، نے بورڈ کو بتایا کہ وہ ڈاکٹر صمدانی کے ساتھ ایک مشاہداتی پروگرام میں اس اُمید پر شامل ہوئیں کہ انہیں امریکی ریزیڈنسی پروگرام کے لیے سفارش نامہ مل جائے گا۔
اس نے گواہی دی کہ ایک رات ڈاکٹر صمدانی اُسے کھانے کے لیے میک ڈونلڈز لے گئے اور پھر اُس کے ہوٹل کے کمرے میں آئے۔ اُنہوں نے اُسے بتایا کہ وہ اپنے تمام طلباء پر لمف نوڈز کا معائنہ کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے اُس کی گردن کو چھونا شروع کر دیا۔ خاتون نے بیان دیا کہ وہ شدید صدمے میں آ گئی کیونکہ ڈاکٹر صمدانی لمبے اور مضبوط جسامت کے مالک تھے اور اُسے خوف لاحق ہو گیا کہ شاید وہ اُس کا ریپ نہ کر دیں۔
اس کے مطابق صمدانی نے اُس کے سینے اور اُس کے نازک اعضا کو چھوا جس پر وہ اُٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ اُس نے ڈاکٹر سے کہا کہ اُسے یہ معائنہ بہت غیر آرام دہ محسوس ہو رہا ہے۔ خاتون نے مزید گواہی دی کہ اس معائنے سے پہلے ڈاکٹر صمدانی بار بار کہہ رہے تھے کہ میری بیوی کو کچھ مت بتانا۔ اُس نے کہا کہ وہ اس سارے واقعے پر شرمندہ اور خود کو قصوروار محسوس کرتی رہی۔
اس کے بوائے فرینڈ، جو اب اُس کا شوہر ہے اور خود بھی ڈاکٹر ہے، نے بھی بورڈ کے سامنے گواہی دی۔ اُس نے بتایا کہ وہی اُسے آبزروَر شپ پر چھوڑنے آیا تھا اور پھر اُس کی روتی ہوئی کال کے بعد واپس لینے گیا۔ اُس نے کہا کہ اُسے اس واقعے سے صدمہ ہوا کیونکہ اُس نے ڈاکٹر صمدانی پر اعتماد کیا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ جب اُس نے صمدانی کو فون کر کے واقعے کا ذکر کیا، تو صمدانی نے جواب دیا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ پیسے چاہتے ہو؟
بعد ازاں، شوہر اُسے چیسٹر فیلڈ پولیس ڈیپارٹمنٹ لے گیا اور اُس سے کہا کہ پولیس کو رپورٹ کرے۔ اُس نے بورڈ کو بتایا کہ پاکستانی ثقافت میں اگر کوئی ڈاکٹر کسی نوجوان خاتون کے جسم کے نازک حصوں کو کپڑوں کے اوپر سے بھی چھو لے تو یہ نہایت غیر اخلاقی اور “بدترین بات” سمجھی جاتی ہے۔
بورڈ نے ایک دوسری خاتون کی بھی گواہی سنی جو اس سال مئی کے آخر میں اُس وقت سامنے آئیں جب صمدانی کا لائسنس معطل کیا جا چکا تھا۔ اُس نے دعویٰ کیا کہ 2021 میں جب وہ ڈاکٹر صمدانی کے ساتھ شیڈوئنگ کر رہی تھی تو اُس دوران بھی ڈاکٹر نے اُسے نامناسب طور پر چھوا تھا۔
ڈاکٹر عتیق صمدانی نے اپنا دفاع کرتے ہوئے تقریباً تین گھنٹے تک خود گواہی دی۔ اُس نے ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کیا اور کہا کہ اُنہوں نے دونوں خواتین میں سے کسی کو بھی نازیبا طور پر نہیں چھوا۔ اس نے زور دے کر کہا کہ سپر 8 موٹل میں قیام پذیر خاتون کے ساتھ کسی بھی قسم کا جسمانی تعلق قائم نہیں ہوا۔ صمدانی کے وکیل نے بورڈ کو بتایا کہ کوئی قابل اعتبار ثبوت موجود نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ اُنہوں نے کسی بھی طرح نازیبا یا غیر اخلاقی رویہ اختیار کیا ہو۔
پہلی خاتون کے شوہر نے اختتامی گواہی میں بورڈ کو بتایا کہ اُس کی شکایت اور اس کارروائی کا مقصد بالکل واضح ہے میری خواہش ہے کہ یہ سب دوبارہ کسی اور طالب علم یا مریض کے ساتھ نہ ہو۔
واضح رہے ڈاکٹر عتیق صمدانی سال 2023 میں اپنا کے سابق صدر ارشد ریحان کی قیادت میں اپنا کی ایڈووکیسی کمیٹی کے چیئرمین تھے اور یہ ایڈووکیسی کمیٹی پاکستان سے امریکہ آنے والے ڈاکٹروں کو ویزہ دلوانے کے حوالے سے معاونت فراہم کرتی ہے۔ ان دنوں جب ڈاکٹر صمدانی اپنا کی ایڈووکیسی کمیٹی کے چیئرمین تھے تب پاکستان کے موجودہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر صرف چیف آف آرمی اسٹاف تھے تو ان کے دورہ نیویارک کے دوران دونوں کی ملاقات بھی ہوئی تھی۔
اس کے علاوہ ڈاکٹرصمدانی پاکستان ایمبیسی کے سرکاری فنگشنز میں بھی بڑے ایکٹیو رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی شاہد آفریدی فاؤنڈیشن نارتھ امریکہ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
خیال رہے اپنا کے اپنے قوانین کے مطابق اگر ریاست امریکہ کسی ڈاکٹر کا لائسنس معطل کر دے تو اپنا بھی اس کی ممبرشپ معطل کرنے کا پابند ہے اس لئے اپنا نے بھی ان کی ممبرشپ ختم کردی ہے۔ واضح رہے امریکہ میں متعدد امریکن پاکستانی اور انڈین ڈاکٹرز جنسی ہراسانی کے مقدمات میں جرم ثابت ہوجانے پر اپنا میڈیکل پریکٹس کا لائسنس کھو چکے ہیں۔