چینی، سیاست اور منافع: پاکستان کی شوگر انڈسٹری میں طاقتوروں کا غلبہ

پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اتار چڑھاؤ صرف خوراک کی رسد و طلب کا معاملہ نہیں بلکہ طاقتور شوگر ملز مالکان، ان کے سیاسی تعلقات اور حکومتی پالیسیوں پر اثر و رسوخ کا بھی نتیجہ ہے۔
ملک میں سالانہ 28 کلوگرام فی کس چینی استعمال ہوتی ہے مگر وقتاً فوقتاً چینی کا بحران اور قیمتوں میں اضافہ معمول بن چکا ہے۔ حالیہ بحران اس وقت پیدا ہوا جب حکومت نے چینی کی قیمت میں اضافے کے بعد 7.5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ گزشتہ مالی سال اسی مقدار میں برآمد کی اجازت دی گئی تھی۔
ملک میں کام کرنے والی تقریباً 85 شوگر ملوں میں سے بڑی تعداد سیاسی شخصیات یا ان کے قریبی ساتھیوں کی ملکیت ہیں۔ جہانگیر ترین کا جے ڈی ڈبلیو گروپ، شریف خاندان کی رمضان اور العربیہ شوگر ملز، چوہدری مونس الہی اور خسرو بختیار کے خاندان کی شوگر ملز، زرداری کے قریبی انور مجید کا اومنی گروپ اور ذوالفقار مرزا کی مرزا شوگر ملز جیسے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔
ایف آئی اے کی ماضی کی انکوائری رپورٹ کے مطابق بعض شوگر ملز نے برآمدی سبسڈی اور قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کر کے اربوں کا منافع کمایا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کارٹیل نما نظام حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہو کر عوامی مفاد کے خلاف فیصلے کراتا ہے۔

سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین سکندر خان نے چینی کے شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی پر قابو پایا جا سکے۔تاہم حکومتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ شوگر مل مالکان کی اکثریت اب غیر سیاسی ہے اور پالیسی سازی میں ان کا اثر ماضی کی طرح نہیں رہا۔
ماہرین کے مطابق جب تک حکومتی مداخلت ختم نہیں ہوتی چینی کے بحران اور اس سے جڑے اسکینڈلز آتے رہیں گے۔