طالبان سپریم لیڈر ہیبت اللہ اور ان کے نائب کے وارنٹ گرفتاری

بین الاقوامی فوجداری عدالت آئی سی سی نے افغان طالبان کے دو اعلیٰ رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ جن پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف منظم اور سنگین مظالم کے الزامات ہیں۔ ان الزامات میں صنفی بنیاد پر تعلیم، نقل و حرکت، اظہارِ رائے، ضمیر، مذہب اور نجی زندگی کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنا شامل ہے۔
عدالت کے مطابق طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی نے 15 اگست 2021 سے افغانستان پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد ان مظالم کا حکم دیا ان کی ترغیب دی یا ان کی سرپرستی کی۔
آئی سی سی کے مطابق طالبان کی پالیسیاں نہ صرف خواتین اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی تھیں بلکہ ان افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا جو خواتین کے حامی تھے یا جن کی صنفی شناخت طالبان کی شریعت کی تشریح سے متصادم تھی۔
طالبان نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ آئی سی سی کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ اقدام اسلام کے مقدس دین کے خلاف دشمنی اور نفرت کا اظہارہے۔
یہ اقدام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرارداد کے اگلے روز سامنے آیا جس میں افغانستان میں خواتین کے ساتھ بڑھتی ہوئی منظم زیادتیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور طالبان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ فوراً اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔
آئی سی سی کی خصوصی مشیر برائے صنفی جرائم لیزا ڈیوس کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب کسی عالمی عدالت نے ایل جی بی ٹی کیو افراد کو باقاعدہ طور پر جرم ضدِ انسانیتکا متاثرہ فریق تسلیم کیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے عدالت کے فیصلے کو سراہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنس کالامارڈ نے اسے ایک “اہم قدم” قرار دیا ہے جبکہ ہیومن رائٹس واچ کی لِزایونسن کے مطابق یہ فیصلہ متاثرین اور ان کے خاندانوں کے لیے انصاف کی جانب اہم راستہ ہے۔