مقبوضہ کشمیر میں 25کتابوں کی فروخت پر پابندی کے بعد پولیس کے چھاپے

بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں پولیس نے جمعرات کو متعدد کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مارے یہ کارروائی ان 25 کتابوں پر پابندی کے بعد کی گئی جنہیں حکام نے علیحدگی پسندی کو ہوا دینے والا مواد قرار دیا ہے۔ ممنوعہ کتابوں میں بُکر پرائز جیتنے والی معروف بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے کی تصنیف بھی شامل ہے۔
بھارتی حکومت کا الزام ہے کہ کچھ مصنفین مقبوضہ کشمیر کے بارے میں جھوٹا بیانیہ پھیلا رہےہیں اور نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
پولیس نے سوشل میڈیا پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس آپریشن کا مقصد علیحدگی پسند نظریات یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والے مواد کو ختم کرناہے اور عوام سے امن و امان قائم رکھنے کے لیے تعاون کی اپیل کی۔
فروری میں بھی بھارتی حکام نے اسی نوعیت کی کارروائی میں اسلامی لٹریچر ضبط کیا تھا۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے اس اقدام کو آمرانہ طرزِ عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی پابندیاں تاریخی حقائق اور کشمیری عوام کی جیتی جاگتی یادوں کو مٹا نہیں سکتیں۔

ممنوعہ کتابوں کی فہرست میں نہ صرف اروندھتی رائے کی 2020 میں شائع ہونے والی مضامین کی کتاب آزادی فریڈم، فاشزم، فکشن شامل ہے، بلکہ ممتاز ماہرِ قانون اے جی نورانی اور لندن اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر سومنترہ بوس کی تصانیف بھی موجود ہیں۔
معروف مورخ صدیق واحد نے اسے آئین کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام آزادی اظہار اور تقریر کے بنیادی حق کو سلب کرتا ہے۔
اروندھتی رائے بھارت کی سب سے نمایاں زندہ مصنفین میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کی حکومت مخالف تحریروں اور سرگرمیوں، خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی پر سخت تنقید، نے انہیں ایک متنازع مگر عالمی سطح پر بااثر شخصیت بنا دیا ہے۔