کراچی میں بارش کے بعد تباہی، جانی و مالی نقصان

ملک کا سب سے بڑا تجارتی و صنعتی مرکز موسلا دھار بارشوں کے بعد ایک بار پھر پانی میں ڈوب گیا۔ بارش کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر ٹھپ ہو گئیں اور تاجروں کو صرف دو دن کے اندر 10 ارب روپے سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
بارش کے پانی نے مارکیٹوں اور دکانوں کا رخ کیا تو لاکھوں روپے کا سامان برباد ہوگیا۔ بجلی کی طویل بندش نے مشکلات کو دوگنا کردیا۔ لیاقت آباد، حیدری، پاپوش نگر، ایمپریس مارکیٹ، طارق روڈ، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ اور جامع کلاتھ سمیت درجنوں بڑے تجارتی مراکز میں کاروبار کئی دنوں تک معطل رہا۔
ایک تاجر نے شکوہ کرتے ہوئے کہادو دن میں ہمارا کروڑوں کا نقصان ہو گیا۔ پانی دکان میں داخل ہوا اور سارا اسٹاک برباد ہوگیا۔ اب مرمت اور صفائی پر بھی بھاری اخراجات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔
شہر کی مرکزی شاہراہیں جیسے شارع فیصل، یونیورسٹی روڈ اور شاہراہ پاکستان کئی فٹ پانی میں ڈوب گئیں۔ گٹر اُبلنے اور کیچڑ کے ڈھیر نے ٹریفک نظام کو مفلوج کر دیا۔ شہری گھنٹوں سڑکوں پر پھنسے رہے اور معمولاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے۔
بارش صرف نقصانِ مال تک محدود نہیں رہی۔ قیمتی جانیں بھی نگل گئی۔ کرنٹ لگنے، دیواریں گرنے اور نالوں میں ڈوبنے کے مختلف واقعات میں کراچی میں 20 افراد اور صوبہ سندھ بھر میں 40 افراد جاں بحق ہوگئے۔ شہر کے مختلف حصوں میں 160 سے زائد فیڈرز بند ہونے سے بجلی غائب ہے جس نے پانی کی شدید قلت کو مزید بڑھا دیا ہے۔
شہری انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بیشتر شاہراہوں سے پانی نکال دیا گیا ہے۔ کمشنر کراچی سید حسن نقوی کے مطابق ناظم آباد اور طارق روڈ انڈرپاس کلیئر کر دیے گئے ہیں۔ وزیر بلدیات سعید غنی نے دعویٰ کیا کہ “صورتحال قابو میں ہے” اور شہریوں سے بلا ضرورت سفر نہ کرنے کی اپیل کی۔
مگر شہری سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر سب کچھ قابو میں ہے تو پھر شہر آج بھی پانی اور اندھیرے میں کیوں ڈوبا ہوا ہے؟
محکمۂ موسمیات کے مطابق موجودہ سسٹم اپنی شدت کھو چکا ہے مگر رات گئے مزید بارش کے امکانات برقرار ہیں۔ گزشتہ روز اورنگی ٹاؤن میں سب سے زیادہ 113 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ کراچی میں اگلا بارش کا سلسلہ 27 اگست کو متوقع ہے، جبکہ اگلے دو دن موسم زیادہ تر ابر آلود رہے گا اور کہیں کہیں ہلکی بارش ہو سکتی ہے۔