پاک سعودی اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری کا پیش خیمہ

پاک سعودی اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ ایس ڈی ایم اے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری کا پیش خیمہ ہو گا اور فوری طور پر جو چند اقدامات متوقع ہیں ان میں مشترکہ فوجی مشقوں سمیت پاکستانی فوج اور ایئرفورس ماضی کی طرح سعودی عرب میں تعینات ہو سکتی ہے۔ جس سے قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوگا۔
پاکستانی لیبر کو ملازمتوں کے زیادہ مواقع مل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آسان شرطوں یا ڈیفر پیمنٹ پر تیل کی فراہمی ممکن ہو سکے گی اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کے اسٹریٹجک رول کو بھی تقویت ملے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف سعودی عرب بلکہ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کی قیادت مسلم اُمّہ کے روایتی تصور سے ہٹ کر اپنے ممالک کی اقتصادی ترقی، قومی سلامتی اور اپنے سروائیوال کے لئے مغربی ممالک خصوصاً امریکہ پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔

سعودی عرب کے حکمران امریکہ کی اجازت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے۔ اس لئے جو لوگ حالیہ پاک سعودی معاہدے کو قطر پر اسرائیلی اسٹرائک کے پس منظر میں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ پاکستان سے سعودی عرب کا فوجی اشتراک اسرائیل اور مغرب کیخلاف ستون بن کر کھڑا ہو گا تو ان کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ سعودی عرب اور اس کے شاہی حکمران امریکہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ دفاعی معاہدہ تو درکنار روٹین کے تعلقات بھی نہیں رکھ سکتے اور حالیہ پاک سعودی ایگریمنٹ بھی امریکہ کی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسکی ضرورت کیوں پیش آئی جب کہ سعودی عرب کے ایران کیساتھ تعلقات میں بہت حد تک بہتری آئی ہے۔ یمن کے باغی بھی سعودیہ کیخلاف کاروائیاں ترک کرچکے ہیں اور اسرائیل بھی براہ راست سعودی عرب کے ساتھ فی الحال کسی تنازعے میں الجھنا نہیں چاہتا۔ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کا بظاہر مقصد یہ نظر آ رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک میں اندرونی بےچینی کو روکنے اور بیرونی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کیلئے ایک ایٹمی مسلمان ملک کی فوج دوسرے اسلامی ممالک کی حفاظت کرے گی جسکا بھرپور معاوضہ دیا جائے گا، جہاں تک تعلق ہے بھارت کا تو اس کے مفادات پر کوئی ضرب نہیں آنے والی، ماسوائے پاکستان کی اقتصادیات میں کچھ بہتری بھارتیوں کیلیئے تکلیف کا باعث ہو گی۔