Chief Editor : Mohammad Afaq Farooqi
Contributing Editor : Ahmad Waqas Riaz

ہومکالم / بلاگامریکی ایئرپورٹس صحراؤں میں تبدیل، ٹرمپ کی پالیساں معیشت کو لے ڈوبیں

ٹرینڈنگ

امریکی ایئرپورٹس صحراؤں میں تبدیل، ٹرمپ کی پالیساں معیشت کو لے ڈوبیں

یہ کوئی وبا نہیں ہے۔ یہ 2020 نہیں ہے۔ یہ 2025 کی گرمیوں کا موسم ہے اورامریکہ کے تمام بڑے ایئر پورٹس پر الو بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اصل میں ہوا کیا؟ وہاں کوئی نہیں تھا۔ میری قطار میں بھی کوئی نہیں تھا۔ یہ واقعی چونکا دینے والا ہے۔ میں نے کبھی ایسی فلائٹ پر سفر نہیں کیا۔ حیران کن۔ مسافروں سے خالی جہازوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ یہ بین الاقوامی پروازیں ایسی ہیں جن میں سیاح تقریباً تنہا امریکہ پہنچ رہے ہیں۔
اگر آپ اس موسمِ گرما میں امریکہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو آپ کم پروازیں دستیاب نظر آ سکتی ہیں۔ نہ کوئی پابندی عائد کی گئی ہے، نہ کوئی وائرس لوٹا ہے، پھر بھی کینیڈا، برطانیہ اور یورپ سے 30 لاکھ بین الاقوامی سیاح خاموشی سے اپنے دورے منسوخ کر چکے ہیں۔ امریکہ کے کئی بڑے ایئرپورٹس پر ہو کا عالم ہے۔ وہ شہر جو کبھی سیاحت سے زندہ تھے، اب بقا کے دن گن رہے ہیں۔ نیویارک سے لاس اینجلس تک، لاس ویگاس سے اورلینڈو تک، ایئرپورٹس رفتہ رفتہ ویران ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹورنٹو، لندن اور ٹوکیو سے پروازیں مسلسل منسوخ یا تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ خود امریکی بھی سفر بند کر رہے ہیں۔
ٹرانسپورٹ سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن نے وبا کے بعد پہلی بار مسافروں کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی ہے۔ یہاں امریکہ کے اہم ترین ایئرپورٹس کا جائزہ پیش کیا جا رہا جو تباہی کے دہانے پر ہیں۔ کیونکہ لاکھوں مسافر پیچھے ہٹ چکے ہیں۔

ایک بڑا سوال ابھرتا ہے: آخر پوری دنیا خاموشی سے امریکہ سے کیوں منہ موڑ رہی ہے؟‏ جارج ایف کنینڈی انٹرنیشنل ایئر پورٹ جو کبھی امریکہ آنے والوں سے بھرا رہتا تھا اب اس قدر خاموش ہے جیسے ابھی ابھی عالمی انخلاء ہوا ہو۔ یہ وہی ہے جسے کبھی “گیٹ وے ٹو امریکہ” کہا جاتا تھا، جہاں روز ہزاروں لوگ دنیا بھر سے پہنچتے تھے۔ ایک ہجوم زدہ جگہ جہاں بیلٹ پر سامان کبھی رکتا نہیں تھا اور لاؤڈ اسپیکر لمحہ بھر کو خاموش نہیں ہوتے تھے۔ لیکن اب جب تم شیشے کے سرد دروازوں سے داخل ہوتے ہو صرف تمہارے قدموں کی آواز سنائی دیتی ہے جو دھول جمی ہوئی کرسیوں کے درمیان گونجتی ہے۔
ایسا نہیں کہ ایئرپورٹ بند ہے۔ بس سنسان ہے۔ جیسے دنیا خاموشی سے پیٹھ موڑ چکی ہو۔ بچوں کی آوازیں اب نہیں گونجتیں جو اپنی ماؤں سے پوچھتے تھے، “کیا ڈزنی میں واقعی ایک قلعہ ہے؟” نہ اب لوگ قطار میں اپنے پاسپورٹ تھامے کھڑے ہوتے ہیں، جو امریکی خواب کو چھونے کے منتظر ہوں۔
دوہزارپچیس میں صرف نیویارک ہی 30 لاکھ سے زائد بین الاقوامی سیاحوں سے محروم ہو جائے گا۔ اور ساتھ ہی 25 ارب ڈالر بھی شہر کی معیشت سے خاموشی سے نکل جائیں گے نہ کوئی آواز، نہ کوئی وارننگ۔ نہ اب لوگ ’’لی برنارڈن‘‘ میں بکنگ کرواتے ہیں، نہ گگن ہائم میوزیم کی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں، نہ ففتھ ایونیو پر ڈیزائنر بیگز کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہیں۔
ایک برطانوی خاتون نے کہا، “میں ہر دو سال بعد نیویارک آتی تھی براڈوے دیکھنے۔ لیکن اس بار میں نے دورہ منسوخ کر دیا۔ خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ اب امریکہ ویسا استقبال نہیں کرتا جیسا پہلے کیا کرتا تھا۔
یہ صرف ایک دورے کی منسوخی نہیں ہے، بلکہ امریکہ اور باقی دنیا کے درمیان تعلقات میں دراڑ ہے۔ اگر جے ایف کے جو امریکی بین الاقوامی سفروں کا دل ہے، خاموش ہے، تو چھوٹے ایئرپورٹس کا کیا حال ہو گا جو مکمل طور پر سیاحوں پر انحصار کرتے ہیں؟ یہ خاموشی وقتی ہے یا دہائی بھر کی جدائی کی گھنٹی بجا رہی ہے؟
لیکن اگر جے ایف کے دل ہے، تو لاس اینجلس ایئرپورٹ مغربی پھیپھڑا ہے، اور یہاں کہانی بالکل مختلف ہے، بلکہ زیادہ پریشان کن ہے۔
ایل اے ایئرپورٹ، جہاں ہر لمحے ایک مشہور ہالی ووڈ کی شخصیت دکھائی دیتی تھیں اس موسمِ گرما میں صرف خالی نشستوں کی قطاریں اور منسوخ پروازوں کی لمبی فہرست دکھائی دیتی ہیں۔ یہ سب ایک افسوسناک خبرنامے جیسا منظر پیش کرتا ہے۔ کبھی یہ جگہ “کیلیفورنیا ڈریمنگ”، سنہری دھوپ اور نیلے سمندر کا نشان ہوا کرتی تھی، لیکن اب ایل اے ایئرپورٹ ایک ایسے فلمی سیٹ جیسا لگتا ہے جسے اچانک بند کر دیا گیا ہو۔
‏لاس اینجلس ایئرپورٹ اور ٹورنٹو کے درمیان دنیا کے مصروف ترین روٹس میں سے ایک اب اپنی گنجائش میں 76فیصد کمی دیکھ چکا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے دھچکہ ہے جو سمجھتے تھے کہ کینیڈین سیاح ہمیشہ کیلیفورنیا آئیں گے۔
لیکن کیوں؟کینیڈین حکومت نے امریکہ کے لیے ٹریول ایڈوائزری جاری کی ہے ،جس میں فائرنگ، بدامنی اور خدمات کے معیار میں کمی کی خبرداریاں شامل ہیں۔ کینیڈین ڈالر کی کمزوری کی وجہ سے امریکہ میں سفر کرنا بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ عدم تحفظ کے احساس سے بہت سے لوگ اب سفر کے بجائے سکون کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ٹورنٹو سے تعلق رکھنے والے ایک بزنس مین نے کہا سانتا مونیکا میں قیمتیں وبا سے پہلے کی نسبت 40فیصد بڑھ چکی ہیں، لیکن سروس بدتر ہو گئی ہے۔ میں ہزاروں ڈالر خرچ کر کے اضطراب نہیں خریدنا چاہتا۔
یہ تبدیلی نہ تو ویزا پالیسیوں سے آئی ہے، نہ سیاست سے۔ یہ ایک زیادہ خطرناک چیز سے جنمی ہے، اور وہ ہے اعتماد کا خاتمہ۔
دوہزار پچیس کے پہلے نصف حصے میں ایل اے میں بین الاقوامی سیاحوں کی تعداد میں 30 فیصد کمی آئی ہے ، مغربی ساحل پر سب سے زیادہ، حتیٰ کہ سان فرانسسکو اور سیئیٹل سے بھی زیادہ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کینیڈا، جو امریکہ کا قریبی اتحادی ہے، اب وہ ملک ہے جس نے امریکہ کے لیے سب سے زیادہ پروازیں منسوخ کی ہیں۔
لاس اینجلس ایئرپورٹ جو کبھی امریکی سیاحت کا ریڈ کارپٹ تھا اب ایک ایسے سنیما ہال جیسا لگتا ہے جس میں کوئی فلم دیکھنے نہیں آ رہا۔ بورڈنگ گیٹ ایسے بند ہو رہے ہیں جیسے اسٹیج کا پردہ گر گیا ہو۔
جب روشنی بند ہو جائے اور تماشائی نہ آئیں، تو اگر سب سے قریبی ہمسایہ بھی چھوڑ جائے تو امریکہ کے پاس کیا باقی بچتا ہے؟

اورلینڈو – وہ شہر جہاں بچوں کی آنکھیں جگمگاتی تھیں۔اورلینڈو میں اب جو چیز غائب ہو رہی ہے، وہ ہیں بچوں کی وہ چمکتی آنکھیں جو پہلی بار دیکھتی تھیں۔جب ڈزنی جانے کا سفر ایک “عیاشی” بن جائے تو شاید امریکی خواب واقعی رنگ بدل رہا ہے۔اورلینڈو، بچپن کا دارالحکومت، جہاں دنیا بھر کے لاکھوں خاندان مکی ماؤس اور شہزادیوں سے ملنے آتے تھے، اب ویران ہوتا جا رہا ہے۔
‏ڈزنی ورلڈ جہاں تین ماہ پہلے سے ریزرویشن ضروری ہوا کرتا تھا، اب بعض دن ایسے ہوتے ہیں جب ٹکٹیں دستیاب ہوتی ہیں۔ اورلینڈو ایئرپورٹ نے بین الاقوامی مسافروں میں دس سال کی بدترین کمی دیکھی ہے،وہ بھی گرمیوں کی سیاحت کے عروج کے سیزن میں۔ ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی ایک ماں نے اپنے 7 سالہ بیٹے سے وعدہ کیا تھا اگر تم اچھا پڑھو گے تو تمہیں ڈزنی لے کر جاؤں گی۔لیکن جب اس نے لاگت کا حساب لگایا ،ایئر فئیر، ہوٹل، اور ٹکٹ ملا کر 2800ڈالر سے زائد رقم بنی تو اسے رکنا پڑا۔ اس نے بیٹے سے کہا میں نے تم سے جھوٹ بولا کہ ڈزنی میں مرمت ہو رہی ہے۔ مجھے سچ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ میں یہ خرچ برداشت نہیں کر سکتی۔
‏ڈزنی کا سفر اب بچوں کے لیے انعام نہیں بلکہ پورے خاندان کے لیے معاشی چیلنج بن چکا ہے۔دوہزار انیس کے مقابلے میں ہوائی جہاز کے ٹکٹوں کی قیمت میں 45فیصد اضافہ ہوا۔‏ڈزنی کے قریبہوٹلوں کی قیمتیں تقریباً دوگنی ہو گئی ہیں۔
پارک کے ٹکٹ اور خوراک کے اخراجات نے اسے قسطوں والا خواب بنا دیا ہے۔مہنگائی صرف جیبیں نہیں کھاتی، یہ بچوں کے بچپن بھی نگل جاتی ہے۔ لاس ویگاس، وہ شہر جہاں دنیا کے کونے کونے سے لوگ اپنی قسمت آزمانے آتے تھے، اب صرف خالی سلاٹس، آدھے بھرے کیسینو اور کم ہوتے کانفرنسز کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
دوہزارپچیس کے پہلے 6 مہینوں میں ویگاس آنے والے بین الاقوامی مسافروں میں 34فیصد کمی آئی ہے۔کانفرنسز منسوخ ہو رہی ہیں۔یورپی اور ایشیائی ٹور گروپ اپنی بکنگ واپس لے رہے ہیں۔اکثر ہوٹلوں کی لاوبیز میں خاموشی چھا گئی ہے، جہاں پہلے قہقہے گونجتے تھے۔
ایک آسٹریلوی کاروباری شخصیت نے کہا میں ہر سال لاس ویگاس آتا تھا۔ لیکن اب ڈالر کی قدر، مہنگی فلائٹس اور امریکہ میں بڑھتا تشدد—ان سب نے مل کر ویگاس کو ‘نو گو’ بنا دیا ہے۔ویگاس ہمیشہ سے عیش و عشرت، چمک اور دیوانگی کی علامت رہا ہے۔ مگر اب وہ اپنے ہی سائے سے ڈر رہا ہے۔یہ صرف بڑے سیاحتی مراکز نہیں، چھوٹے مگر اہم شہروں کا حال بھی برا ہے۔
ڈینور: جو کبھی پتھریلے پہاڑوں کی دہلیز مانا جاتا تھا، اب بیرونی سیاحوں کے لیے کشش کھو رہا ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں بین الاقوامی وزیٹرز میں 22فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔
سیئیٹل: جو بوئنگ، کافی، اور بارش کے لیے مشہور ہے — اس سال موسم گرما میں 18فیصد کم سیاح خوش آمدید کہہ سکا۔
کچھ بنیادی وجوہات:مہنگی پروازیں — یہاں آنا خود ایک پرتعیش عمل بن چکا ہے۔کم سروس، زیادہ چارجز — ہوٹلوں میں صفائی کم، کرایہ زیادہ ہے۔شہری بدامنی اور ہوم لیسنیس — بہت سے مہمان خوف محسوس کرتے ہیں۔
ایک برطانوی خاتون سیاح کا کہنا تھا میں اپنے بچوں کو دکھانا چاہتی تھی وہ امریکہ جو میرے والدین نے دیکھا تھا۔ مگر اب وہ خواب دھندلا گیا ہے۔

امریکی ایئرپورٹس اب ٹرمینل نہیں، ویران زمین لگتے ہیں۔ چیک اِن کاؤنٹر پر کوئی نہیں۔ فری وائی فائی ہے، مگر مسافر نہیں۔ 2025کا امریکہ سیاحوں کو صرف یادیں دے سکتا ہے، تجربہ نہیں۔ اور جب سیاحت، جو ایک ملک کا “نرم چہرہ” ہوتی ہے، سکڑنے لگے تو اس کے معاشی، سماجی اور عالمی اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔
سیاحت صرف معیشت کا ایک پہلو نہیں ہوتی — یہ ایک ملک کا تشخص، ساکھ اور نرم طاقت سافٹ پاور بھی ہوتی ہے۔ 2025 میں امریکہ کے لیے سب سے بڑا نقصان صرف ڈالرز میں نہیں، بلکہ اعتماد میں ہو رہا ہے۔
پہلے امریکہ کا خواب، اب باقی دنیا کے لیے ڈراؤنا خواب بنتا جا رہا ہے۔فرانس کے ایک ٹریول بلاگر نے کہا پہلے ہم امریکہ کو دنیا کا مستقبل سمجھتے تھے۔ اب یہ ایک بکھرتی ہوئی سلطنت لگتی ہے۔
جاپانی سیاحوں کے گروپ نے واشنگٹن ڈی سی کا ٹور اس وجہ سے منسوخ کیا کہ:ہمارے شہریوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی مظاہرے کے قریب نہ جائیں۔ مگر اب تو مظاہرے ہر جگہ ہوتے ہیں۔

کس کو مورد الزام ٹھہرایا جائے؟سخت امیگریشن پالیسیاں — کئی ممالک کے شہریوں کو ویزا ہی نہیں مل رہا۔ بڑھتا ہوا سیاسی انتشار — گن وائلنس، مظاہرے، اور غیر متوقع فیصلے۔معاشی عدم استحکام — ڈالر کی قوت تو بڑھی ہے، مگر قیمت سب کچھ مہنگا کر چکی ہے۔ایک جنوبی افریقی صحافی نے لکھا یہ وہ امریکہ نہیں رہا جسے ہم ‘فرسٹ ورلڈ’ سمجھتے تھے۔ یہاں آ کر ہم خود کو زیادہ محفوظ محسوس نہیں کرتے۔

کیا امریکہ پہلے جیسا ہو گا؟یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں ہے — کیا امریکہ دوبارہ وہ سیاحتی جنت بن سکے گا؟ کیا نیویارک کے سٹیج دوبارہ روشن ہوں گے؟ کیا لاس ویگاس کے کیسینو دوبارہ زندہ ہوں گے؟ممکن ہے۔
مگر اس کے لیے صرف معیشت ٹھیک کرنا کافی نہیں۔ صرف سستے ٹکٹ دینا بھی کافی نہیں۔ اعتماد، حفاظت، مہمان نوازی، اور نرمی یہ سب بحال کرنا ہو گا۔دنیا ابھی رکی نہیں۔ وہ آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر امریکہ واپس آنا چاہتا ہے تو صرف پروازیں بحال کرنا کافی نہیں، اسے اپنا دل بھی کھولنا ہو گا۔
واشگنٹن میں متعین سفارتی حلقوں کے ساتھ مقامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے صدر ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کے ساتھ امیگریشن پالیسوں نے جہاں سیاحت کے کاروبار کو مکمل تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے تو دوسری طرف ہاوسنگ کے ساتھ چھوٹے بڑے ہر کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا ہے، بڑی بڑی ہاوسنگ سوسائٹیاں کرایہ داروں سے خالی ہوچکی ہیں گیس اسٹیشن سے گروسری اسٹور تک تمام کاروبار کو شدید مندی کا سامنا ہے اور ایک بڑی اکثریت کاروبار کے ساتھ گھروں کی مارگیج دینے سے قاصر نظر آتی ہے، اس کے علاوہ تارکین وطن جن میں بڑی تعداد لاطینی امریکہ کے ہسپانیوں کی ہے جو 13 سے 14 ملین کے قریب ہیں اور غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم ہیں امیگریشن کے چھاپوں کے خوف سے ادھر سے ادھرنقل و حرکت پر مجبور ہیں، اور بڑی تعداد اس وجہ سے اپنے آبائی ممالک واپس چلی گئی ہے۔ امریکہ کے سرمایہ دار طبقے کا دعویٰ ہے اگلے چند ماہ میں ملک گیر سطح پر گھروں کے ساتھ بڑے بڑے کاروبار فور کلوژر کے لیے سامنے آنے والے ہیں جس کے ساتھ ہی امریکہ میں تاریخی کساد بازاری کا دور شروع ہوگا اور مہنگائی جس نے پہلے ہی عوام کی کمر توڑ دی ہے مزید بڑھے گی۔

مزید پڑھیں