Chief Editor : Mohammad Afaq Farooqi
Contributing Editor : Ahmad Waqas Riaz

ہومبریکنگ نیوزصدر ٹرمپ کی میزبانی میں آذربائیجان اور ارمینیا میں معاہدہ

ٹرینڈنگ

صدر ٹرمپ کی میزبانی میں آذربائیجان اور ارمینیا میں معاہدہ

واشنگٹن کے تاریخی وائٹ ہاؤس کے در و دیوار نے ایک ایسا لمحہ دیکھا جس نے دہائیوں کے زخم بھرنے کی امید جگا دی۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اور آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پشینیان امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی میزبانی میں آمنے سامنے بیٹھے مگر اس بار جنگ یا الزام تراشی کے لیے نہیں، بلکہ امن کی دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے۔
دونوں رہنماؤں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور ٹرمپ نے اس موقع کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیا۔ امریکی صدر نے کہا کا کہنا تھا کہ میں اس دن کے انتظار میں تھا. یہ معاہدہ نہ صرف اہم تجارتی اور سفری راستے کھولے گا بلکہ خطے میں امریکی کردار کو بھی مضبوط کرے گا۔
یہ وہی آذربائیجان اور آرمینیا ہیں جنہوں نے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں ناگورنو-کاراباخ پر خونریز جنگ لڑی اور پھر سالہا سال تک کشیدگی کی دھند میں گھِرے رہے۔ لیکن اس دن، جمعہ کے روز، ایک نیا وعدہ کیا گیا ہمیشہ کے لیے لڑائی کا خاتمہ، سفر اور تجارت کی بحالی، اور تعلقات کا نیا دور علیوف اور پشینیان دونوں نے ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ علیوف نے کہا، صدر ٹرمپ نے چھ ماہ میں کرشمہ کر دکھایا۔ ٹرمپ نے مزید اعلان کیا کہ توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تجارتی توسیع کے لیے بھی دو طرفہ معاہدے ہو گئے ہیں۔


دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کی ثالثی کو سراہتے ہوئے انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی تجویز دی۔
یہ پیش رفت نہ صرف قفقاز بلکہ عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ ہے۔ ایک صدی تک روس اس خطے میں طاقت اور امن کا ضامن سمجھا جاتا رہا، مگر اب امریکی ثالثی نے ولادیمیر پیوٹن کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس تاریخی معاہدے کو ’’امن، استحکام اور تعاون کے ایک نئے دور‘‘ کا آغاز قرار دیا۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا:
“ہم صدر علیوف اور آذربائیجان کے عوام کو اس فخر کے لمحے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ ان کی دانشمندی، دور اندیشی اور بصیرت کا مظہر ہے۔ پاکستان ہمیشہ اپنے برادر ملک آذربائیجان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور اس تاریخ ساز لمحے میں بھی ان کے ساتھ ہے۔”
شہباز شریف نے امریکی کردار کو بھی سراہتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ تجارت، رابطوں اور علاقائی ہم آہنگی کے نئے دروازے کھولے گا، اور امید ظاہر کی کہ مکالمے کی یہ روش دنیا کے دیگر متنازع خطوں کے لیے بھی ایک روشن مثال ثابت ہوگی۔

مزید پڑھیں